urdu romantic kahani | urdu kahaniyan - urdu kahaniyan

Latest

BANNER 728X90

Monday 2 January 2023

urdu romantic kahani | urdu kahaniyan

urdu romantic kahani | urdu kahaniyan


best urdu kahani best urdu kahani books best urdu romantic novels best urdu romantic short novels bold romantic urdu kahani download urdu romantic novel new urdu romantic novel


urdu romantic kahani



قمبر شہداد کوٹ سے ارسال کی گئی آبرو باختہ لڑکی کی داستان

کمزور لمہے

خیرو اور مہراں بھٹک گئے تھے

مگر سزا صرف مہراں کامقدربنی


تحریر مورشاہد حسین 


خیرو کو اپنی پھوپھو سے بڑی انسیت تھی وہ کم و بیش روز ہی پھوپھو کے گھر کا چکر لگا لیتا تھاجب وہ پھوپھو کے گھر جاتا اس کی نگائیں پھوپھو کی بیٹی مہراں پر مرکوز ہوتی تھیں وہ دل و جان سے اس پر فدا تھا وہ جتنی دیر وہاں بیٹھتا اس کی نگائیں مہراں کا ہی طواف کرتی تھیں وہ اس کے سانولے سراپے میں کھو کر رہ جاتا دیکھتے ہی دیکھتے اس پر قربان جاتا یوں وہ اپنی پیاسی آنکھوں سے پیاس بجھا لیتا تھا اس سے اس کے دل کو عجیب سا سکون محسوس ہوتا تھا اور وہ اسی سرشاری میں پھوپھو کے گھر سے پلٹ آتا تھاخیرو صبح سویرے اٹھتا بھینس گائے وغیرہ کو چارہ ڈالتا ڈور ڈنگر کی از حد سیوا کرتا چارہ کاٹتا اسے ٹوکا مشین سے کترتا فصلوں کو پانی سے سیراب کرتا اور اپنے کام سے فارغ ہوتے ہی اس کے قدم میراں کے گھر کی جانب بڑھ جاتے یہ اس کے روز کا معمول تھا مہراں کو دیکھ کر اس کی دن بھر کی تھکاوٹ ہوا ہو جاتی تھی وہ دل ہی دل میں اسے بے پناہ چاہتا تھامگر اس میں اظہار کی جرت نہ تھی جب وہ اسکی محبوبہ نظروں سے اوجل ہوتی تو اس کا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا ہر لمہے دل بے تاب رہتا ایک پل بھی اسے قرار نہیں ہوتا تھا اور رات کو بستر پر لیٹتے ہی مہراں خیال بن کر اس پر چھا جاتی تھی یوں وہ اس کےتصور میں پرسکون ہو کر خوابوں کی سر زمین پر جانے کیا کھوجتا ہوا نیند کی وادیوں میں اتر جاتا تھادوسری طرف مہراں کے دل میں بھی انوکھا جزبہ بیدار ہونے لگا اس کے دل میں بھی میٹھا سا درد سر اٹھانے لگا خیرو اسے اچھا لگنے لگا تھا وہ اس کے آنے سے کھل اٹھتی تھی ہر وقت اد کے خیالوں میں گم سم رہنے لگی تھی لیکن یہ جزبہ اس کی سمجھ سے بالا تر تھا اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس جزبے کو کیا نام دوں خیرو اس کے دل ودماغ میں اس قدر چھا گیا تھا کہ اسے ہر طرف خیرو ہی نظر آنے کگتا تھا ہر وقت اسے سوچنا اس کے خیالوں میں کھوئے رہنا اس کی عادت بن گئی تھی شب وروز گزرتے رہے خیرو کی محبت میں دن بدن  شدت آرہی تھی دوسرے جانب مہراں بھی اس کی طرف کھنچی چلی جا رہی تھی ان دونوں کے دلوں میں محبت کے سمندر موجزن تھے وہ ایک دوسرے کو بے پناہ چاہنے لگے تھےمگر خیرو کو اپنی محبت کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور مہراں کا بھی یہ ہی حال تھا اسے بھی کبھی حوصلہ نہیں ہوا کہ اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرسکے خیرو جب اپنی محبوبہ کے گھر جاتا تو وہ اسے چائے پیے بنا نہیں جانے دیتی تھی وہ اپنے محبوب کیلئے اپنے ہاتھوں سے چائے بناتی گھی خیرو کو بھی مہراں کے ہاتھوں کی چائے پینے کی عادت سی ہو چکی تھی جب وہ خیرو کو چائے پیش کرتی تھی تو وہ مہراں کو نثار ہوتی نگاوں سے دیکھتا تھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی تھی مہراں بھی جواب میں اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی تھی اس سے خیرو کا حوصلہ بڑھتا تھا کہ آگ دونوں طرف لگی ہے وہ سخت گرمیوں کے دن تھے اس وقت اکثر گاوں کے لوگ درختوں کے فرحت بخش سائے میں بیٹھے آرام فرما رہے تھے خیرو کے قدم بے اختیار مہراں کے گھر کی جانب بڑھ گئے تھے مہراں اس وقت باڑے میں کھڑی بھینسوں کو پانی پلا رہی تھی خیرو کی نظر اس پر پڑی تو اس کے دل میں خوشی کہ لہر دوڑ گئی محبوبہ کو تنہا پا کر اہک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس کی جانب لپکا اس کی آمد سے مہراں بھی خوشی سے نہال تھی مہراں ایک بات کہوں برا تو محسوس نہیں کرو گی خیرو نے ہمت اور حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا جی کہیے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگامہراں مجھے تم سے پیار ہو گیا ہے خیرو نے مہران کے دونوں ہاتھ تھام لیے مہراں کی نظریں جھکی ہویئں تھیں خیرو واقعی اس سے سچی اور پرخلوص محبت کرتا تھا یہ خیال ہی اس کیلئے فرحت بخش تھا وہ ہلکی سی مسکرا دی تھی اندر ہی اندر اس کا دل مچلنے لگا تھا مہراں میں تم کو بے پناہ چاہنے لگا ہوں تم میری سوچوں خیالوں میری روح میں بستی ہو میں تمہیں دل کی گہرایوں سے چاہتا ہوں خیرو نے بے دھڑک اپنی محبت کا اظہار کردیامہراں خوشی سے پھلے نہئں سما رہی تھی مہراں نے شرماتے ہوئے اپنے ہاتھ چھڑا لیئے اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اسے اپنے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں مجھے بھی تم سے بے پناہ محبت ہے مہراں نے شرماتے ہوئے کہا اور سرشاری کے عالم میںوہاں سے دوڑتی ہوئی چلی گئی لیکن جا ے سے پہلے ڈھلتی شب میں ملنے کا اقرار کر لیا تھا گرمیوں میں اکثر خیرو اپنے گھر کی چھت پر سوتا تھا حسب معمول وہ اس رات چھت پر کچھ جلدی چلا گیا تھا اسے اپنی محبوبہ سے ملنے کا بے تابی سے انتظار تھا وہ اسی بے تابی میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ مہراں سب کی نظر سے خود کو بچا کر خیرو کے پاد پہنچ گئی تو اس کی جان میں جان آگئی تھی خیرو اور مہراں ملے جی بھر کے باتیں کیں پیار ہوا اقرار ہوا ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی گئیں کافی دیر تک وہ خوش گپیوں میں مشغول رہے اور پھر مہراں بہت سے ارمان دل میں بسا کر واپس چلی گئی تھی خیرو کے تصور میں لیٹ کر خوابوں کی نگری میں اتر گئی تھی دوسری طرف خیرو کروٹیں لیتا رہا اور پھر ناجانے کون سے پہر مہراں ہی کے خیالوں میں ڈوبے ڈوبے سو گیا یوں مہراں اور خیرو کے ملاقات کے سلسلے چل نکلے تھے رات ڈھلتے ہی خیرو اس کی آمد کا بے تابی سے ۔منتظر رہتا۔ مہراں بھی سب کے سونے کا بے تابی سے انتظار کرتی تھی اور پھر سب کے سوتے ہی چپ چاپ چارپائی سے اٹھتی اور خیرو کے پاس پہنچ جاتی تھی خیرو اور مہراں کی پاکیزہ محبت کے شب روز یوں ہی گزر رہے تھے  اس رات چاند اور تارے بادلوں کی اوٹ میں تھے خیرو نے مہراں کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا جان میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں جی چاہتا ہے تم ہمیشہ میری بانہوں میں رہوبس خیرو کی کہنے کی دیر تھی مہراں بے خودی میں اس کی بانہوں میں جھول گئی تھی پھر دو جوان دل اس کمزور لمحے کی نظر ہو گئے اور وہ سب ہو گیا جس کے بعد آنسو اور آہیں ہی مقدر ہوتی ہیں مہراں نے خیرو کو اپنی طبیعت کے بارے بتایا تو وہ بھی بری طرح لرز اٹھا تھا اسے یوں لگا جیسے زمین اس کے پیروں تلے سے سرک گئی ہو خیرو میں بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہوں مہراں کو پریشانی کے عالم میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا بس وہ خیرو سے لپٹ کر بچوں کی طرح رو رہی تھی اس کے رونے میں ایسی تڑپ تھی کہ پورے ماحول پر جیسے ایک سناٹا ایک اداسی چھا گئی تھی مہراں دکھ اور غم میں مسلسل روئے جا رہی تھی خیرو نڈھال سا ہو کر رہ گیا تھا اور اسے اتنا حوصلہ اور ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اپنائیت سے مہراں کو حوصلہ دے خیرو سوچ رہا تھا اگر کسی کو ہمارے گناہ کبیرہ کی کسی کی بھنک پڑ گئی تو  شامت آجائے گی  نا جانے کون سی قیامت برپا ہو گی نا جانے کون کون سے ظلم و ستم اور صدمے سر اٹھانے پڑیں گے اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو  پلکوں سے ہو کر رخساروں پر بہہ نکلے تھے اور پھر کچھ سوچ کر اس نے روتی سسکتی مہراں کو رخصت کیا تھا مہراں اپنی زندہ لاش کو گھسیٹتی اپنے گھر آگئی تھی وہ مایوسیوں کے اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئی ایک ایک پل اس کے لئے صدیوں پر بھاری تھا اس میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اپنا دکھ کسی کو بتا سکے وہ زندگی سے تھک گئی تھی اسے آنے والے دنوں کے صدمے کا بڑا خطرہ تھاجو اس کے لئے ناقابل برداشت تھا وہ ایک بار موت کو برداشت کر سکتی تھی مگر اس میں لمحہ لمحہ مرنے کی ہمت بلکل نہیں تھی آخر اس نے اذیت ناک دن آنے سے پہلے ہے گہرے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا